Friday, April 27, 2012

ابوجہل سے اسفندیار تک




"بہت سارے لوگ پوچھ رہے ہیں کہ ہم نے جماعت نہم دہم کے کورس سے اسلامی آیات کیوں حذف کیے؟ جواب بہت سادہ سا ہے کہ ہمیں اور اسامہ بن لادن، ملا عمر اور بیت اللہ محسود جیسے دہشت گرد نہیں پیدا کرنے بلکہ انجئنیرز اور ڈاکٹرز پیدا کرنے ہیں"
اسفندیار ولی خان 

‘محبِ وطن’ اسفندیار کی اردو اپنے اعلیٰ اسلوب سے عیاں ہے۔ عبارت کے آخر میں دیا گیا لنک کلِک کیجئے، یہ اسفندیار کے اپنے فیس بک پیج سے لیا گیا ہے۔ اسفندیار ولی کے الفاظِ زریں! اسلام کے شیروں کی سرزمین پر نحوست کا نشان! عزت دار پختونوں کے عظیم نام پر ایک بدنما داغ! ‘جماعت نہم دہم کے کورس سے اسلامی آیات کو حذف کرنے’ کا برملا اعتراف ہی نہیں ہورہا، دادطلب نگاہوں سے میرے اور آپ کی طرف دیکھا بھی جارہا ہے۔ بھلا میں اور آپ اس پر داد دینے میں لیٹ کیوں ہوگئے؟ تف ہے ہم پر! نصاب سے آیاتِ قرآن کو ہی تو خارج کیا گیا ہے، اس پر تعجب؟ سوالات؟ اتنی سادہ اور سامنے کی بات، اور لوگ کس سادہ لوحی سے ابھی تک ‘پوچھ’ رہے ہیں۔ ان کا خیال ہے، کوئی سہو ہوگیا ہے۔ اسفندیار کی بابت ایسی بدگمانی!
تکبر اور گھمنڈ دیکھتے جائیے: ‘جواب بہت سادہ ہے’۔ یعنی یہ کوئی شرمانے اور جھینپنے کی بات تھوڑی ہے؛ آپ کے سامنے اسفندیار ہے جس کو آپ کم از کم تین نسل سے جانتے ہیں، ایک ایسی مخلوق جس کو اپنی وفاداری اور کاسہ لیسی کے لیے وقت کے سب سے بڑے دشمنِ اسلام کی تلاش رہتی ہے، اور اپنی دشمنی اور زہرافشانی کے لیے اسلام کے عظیم ترین جاں نثاروں کی: تبھی تو جواب بہت سادہ ہے!



کھودا پہاڑ نکلا چوہا، آیاتِ قرآنی کو نصاب سے ہمیشہ کے لیے حذف کردینے کا سبب؟ ملین ڈالر انکشاف: ‘ہمیں مزید اسامہ اور ملاعمر پیدا نہیں کرنے ڈاکٹر اور انجنئر پیدا کرنے ہیں’۔
یعنی حماقت کے ساتھ جہالت بھی۔۔۔! کون نہیں جانتا، اسامہ انجنئرنگ کے ایک ماڈرن ادارے کا گریجوایٹ تھا، اسفندیار کی ‘نہم دہم’ پڑھا ہوا وہ نالائق نہیں جس کو اپنی قومی زبان کا مذکر مؤنث بھی ڈھنگ سے بولنا نہ آتا ہو! ایمن الظواھری مصر کے ایک اعلیٰ ادارے کا پڑھا ہوا میڈیکل ڈاکٹر ہے اور فرفر انگریزی بول سکتا ہے۔ جبکہ اسفندیار، ڈاکٹر اور نہ انجینئر۔ شاید سمپل بی اے، جس کے بل بوتے پر ڈاکٹری اور انجنئری کا رعب جھاڑا جارہا ہے! قوم کی قسمت سنورنے کا وقت تو اب آیا ہے؛ نظامِ تعلیم اسفندیار ولی ایسے ‘ماہرین’ کے ہاتھ میں نہ آتا تو دنیا ڈاکٹروں اور انجنئروں کو پیدا ہوتے ہوئے دیکھ ہی کیسے سکتی تھی؟ ہاں مگر ‘پاکستان ریلوے’ کے ناکارہ انجنوں جیسے انجنئر اور ڈاکٹر! نحوست برسنے کے لیے بھی تو شرط یہی ہے کہ ایک جگہ کو قرآن کی برکات سے تہی دامن کردیا جائے!
ہوئے تم دوست جس کے۔۔۔!

اِس ‘سادہ جواب’ پر، اگر آپ اوپر کا لنک دیکھیں، خدا کے فضل سے کئی سو آدمی نے لعن طعن کر رکھی ہے۔ یہاں؛ جناب اسفندیار نے ضروری خیال کیا کہ اِس ‘سادہ جواب’ کے ساتھ ساتھ ایک عدد وضاحت بھی دی جائے:

اس پوسٹ کا مقصد ہر گز ہر گز کسی کی دل آزاری نہیں جس طرح ہمارے سکولوں میں اسلامی نصاب کو غلط انداز میں تھوڑ مروڑ کر پڑھایا جاتا ہے اس سے اپ سب اچھی طرح واقف ہیں کہ آیت کا اصل مقصد و معنی کچھ اور ہوتا ہے لیکن قاری حضرات کم علمی کی وجہ سے اس آیت کا غلط ترجمہ کرتے ہیں اور چوٹھے بچوں کے ذہنوں میں اسی غلط تشریح کو بٹھاتے ہیں جب بچہ بڑا ہوجاتا ہیں تو اس کو اپنے علاوہ سب کافر دکتھے ہیں. اس کی مثال وہ سب لوگ ہیں جنہوں نے میرے اس پوسٹ کو سمجھے بغیر گالیاں دیے اور غدار تک کہہ دیا
( http://www.facebook.com/KhanAsfandyarWali)

عذرگناہ بدتر از گناہ! جس طرح آپ نظامِ تعلیم پر اتھارٹی ہیں اور اسامہ وملاعمر کے وجود میں نہ آنے کو ‘یقینی’ بنانے کے لیے آیات کو نصاب سے نکال دینے کا اِک نسخۂ نایاب پیش فرماتے ہیں۔۔۔ اسی طرح آپ آیات کی تفسیر پر بھی کمال اتھارٹی ہیں۔ کون آیات کی غلط تشریح کرتا ہے، اس کا فیصلہ بھی اِسی دربارِ اکبری سے ہوگا۔ اور اس کا تدارک یوں کیا جائے گا کہ قرآن کی آیات ہی نصاب سے خارج کردی جائیں۔ رہے بانس نہ بجے بانسری!



وَقَالَ الَّذِينَ كَفَرُوا لَا تَسْمَعُوا لِهَـٰذَا الْقُرْآنِ وَالْغَوْا فِيهِ لَعَلَّكُمْ تَغْلِبُونَ
حم السجدۃ: ٢٦

اور کافر کہنے لگے کہ اس قرآن کو سنا ہی نہ کرو اور (جب پڑھنے لگیں تو) شور مچا دیا کرو تاکہ تم غالب رہو 



مثالیں کونسی دیں؟ اسامہ، جس نے اسفندیار کے صوبے کا نصاب کبھی پڑھا اور نہ دیکھا۔ ملا عمر، جس کو اِس ملک کے نصاب پڑھنے کا شرف کبھی حاصل نہیں ہوا۔ محسود جو دینی مدارس میں پڑھا نہ کہ اِن سرکاری سکولوں میں جس کا نصاب – بقول اسفندیار – اسامہ، ملاعمر اور محسود پیدا کررہا ہے!



پس اِن تین مثالوں – اسامه، ملا عمر، بيت الله محسود – سے ثابت ہوا کہ سکولوں کے نصاب سے آیات حذف کردینا کس قدر ضروری ہے!
اِس کو کہتے ہیں سائنٹیفک طرزِ استدلال! اور ایسی گہری نظر کسی کسی کو نصیب ہوتی ہے!
اور اگر سرکاری سکولوں کے اِس نصاب سے آیات خارج کردینا بھی مطلوبہ نتائج نہ دے، اور ظاہر ہے کہ محض ‘نہم دہم’ کے سرکاری نصاب سے خارج کردینا اسفندیار کے مطلوبہ نتائج کبھی نہیں دے سکتا۔۔۔ تو پھر آیات واحادیث کو کہاں کہاں سے خارج کردینا ضروری ہوگا؟ معاملہ کی اصل جہت یہ ہے؛ جوکہ کسی سے پوشیدہ نہیں!



کون اِس قدر سادہ لوح ہے کہ واقعتاً اِس مسئلے کی زد سرکاری سکولوں کے ‘نہم دہم’ تک محدود مان لے! اسفندیار کو جرأت حاصل ہے تو وہ ذرا کھل کر بات کریں۔ دل کے پھپھولے ذرا کھل کر پھولیں۔ اِس قرآن سے پورا سرمایہ دار مغرب تنگ ہے، جو آج اسفندیار کی پشت پر ہے۔ اِس قرآن سے کمیونسٹ روس تنگ تھا، جس نے بڑی دیر تک ‘مغرب کے ایجنٹ مجاہدین’ کے خلاف ‘علمِ حق’ بلند کیے رکھا تھا اور اسفندیار کے بزرگوار کی پشت تھپکتا تھا، یہاں تک کہ اپنے یہاں (پورے سوویت یونین میں) قرآن کی تعلیم پر پابندی عائد کررکھی تھی۔ اِس قرآن کے ہاتھوں دنیا کا ہر باطل نظریہ روہانسا ہے۔ دنیا کا ہر شیطان اِس قرآن سے سرتاسر آزردہ ہے۔ کوئی کہے نہ کہے، اسفندیار ایسے لوگوں کو آپ ہی اِس آئینے میں اپنا چہرہ نظر آتا ہے۔ کسی نے اسفندیار کو ‘کافر’ کہا ہو یا نہیں، ایسی ذہین ہستیوں کو قرآن سن کر آپ اپنے اوپر شک گزرتا ہے کہ ایمان اور اطاعت اور وفاداری جس چیز کا نام ہے اُس سے اِن جیسوں کا کیا رشتہ! ایسا آئینہ دنیا میں موجود ہی کیوں ہے؟ ‘نہم دہم’ کے نصاب سے اس کو نکال بھی دیا جائے تو اس سے کیا بنے گا، اِس کو تو جہان سے نکال دینے کے لیے سرگرم اداروں کا ساتھ دینا ہوگا۔
بہت صحیح جگہ پہنچے آپ، اسفندیار صاحب! آپ کی جنگ قرآن کے ساتھ ہے۔ بات آخر زبان پر آجاتی ہے۔ یہی قرآن بتاتا ہے کہ خدا نے منافقین کو بے نقاب کرنے کا ایک خاص انتظام فرما رکھا ہے، جس کے باعث وہ اپنا آپ دکھائے بنا نہیں رہ سکتے:



أَمْ حَسِبَ الَّذِينَ فِي قُلُوبِهِم مَّرَضٌ أَن لَّن يُخْرِجَ اللَّـهُ أَضْغَانَهُمْ 
محمد: ٢٩ 

کیا وہ لوگ جن کے دلوں میں بیماری ہے یہ خیال کئے ہوئے ہیں کہ خدا ان کے کینوں کو ظاہر نہیں کرے گا؟



تم بہت صحیح جگہ پہنچے ہو، اور جوکہ سب سے سنگین مقام ہے۔ ہردور کے بدبخت ترین لوگوں کے لیے مختص کررکھا گیا مقام۔ قرآن کے ساتھ ٹکر لینا اور قرآن کا راستہ روکنا۔ ہردور کا ابوجہل! علم اور تعلیم کے شعبے کو ایسے ہی ‘‘جہل’’ کی ضرورت تھی حضرتِ اسفندیار، سو وہ تمہارے دم سے پوری ہونے لگی۔ سچ پوچھو تو کمی ہی اِک تمہاری تھی؛ ورنہ اس قوم کے پاس کیا نہیں تھا! جہل کی اصل شان یہی ہے کہ مطلق علم اور دانائی کے منبع ‘‘القرآن العظیم’’ سے دشمنی کی جائے اور اپنی کامیابی کو اس کی پسپائی سے مشروط کیا جائے۔ تم کامران ہو اسفندیار، اور تمہارے ساتھ وہ قوم بھی جو اپنی تقدیر تم جیسوں کو سونپے گی! تم یونہی ادھر ادھر پھرتے رہے۔ کبھی اسامہ، تو کبھی ملا عمر، اس سے پہلے کبھی مودودی تو کبھی اقبال۔ کبھی مجاہدین کے لتے تو کبھی صوفی محمد کے۔ کبھی جلی کٹی محمد بن قاسم کو تو کبھی محمود غزنوی کو۔ انسان تو بہرحال خطا کا پتلا ہے۔ صحیح دیدہ دلیری تو یہی ہے جو اَب تمہارے نصیب میں آنے لگی ہے۔ قرآن کے ساتھ ٹکر لے کر تم نے اپنی بدبختی کے لیے بہت صحیح دشمن چنا ہے۔ اس کا انجام تمہیں معلوم ہو نہ ہو، ہم قرآن پڑھنے والوں کو یقینی طور پر معلوم ہے۔ 
لگتا ہے خدا اِس بھلے خطے کا جلد کوئی فیصلہ کرنے والا ہے۔

0 comments:

Post a Comment

Leave a comment