سلطان صلاح الدین
ایوبی رحمہ اللہ
سلطان
صلاح الدین ایوبی جس نے اسلامی تاریخ پراپنی عظمت وشوکت کے انمٹ نقوش ثبت کیے ہیں
کی اسلام اور مسلمانوں کے لیے غیرت وحمیت کا عالم یہ تھا کہ ابھی نوعمر ہی ہیں
‘عیسائی فوجیں ”رہا“پر قبضہ کرکے مال واسباب لوٹ کر عورتوں کو پکڑ لے جاتی ہیں ۔یہ
ظلم دیکھ کر یہ نوعمر صلاح الدین ایک ترکی بوڑھے کو لے کر سلطان عماد الدین زنگی
کے پاس پہنچتے ہیں ۔عیسائیوں کے مظالم سے بادشاہ کو آگاہ کرتے ہیں ‘اس کی اسلامی
حمیت اور غیرت کو بیدار کرتے ہیں اور رو
رو کر مدد کے لیے فریاد کرتے ہیں ۔
نیک دل
بادشاہ کو ان حالات کا علم ہوتا ہے تو وہ تمام فوجیں جمع کرتا ہے ۔انہیں ”رہا“کے
حالات سناتا اور جہاد پر ابھارتا ہے اور اعلان کرتا ہے کہ ”کل صبح میری تلوار رہا
کے قلعے پر لہرائے گی ‘تم میں سے کون میرا ساتھ دے گا ؟“ یہ اعلان سن کرتمام فوجی حیران رہ جاتے ہیں کہ
یہاں سے ”رہا“۹۰ میل کی دوری پر ہے ‘راتوں رات وہاں کیسے پہنچا جا سکتا ہے ؟یہ تو
کسی طرح ممکن نہیں ۔تمام فوجی ابھی غور ہی کررہے تھے کہ ایک نو عمر لڑکے کی آواز
گونجتی ہے ”ہم بادشاہ کا ساتھ دیں گے۔“لوگوں نے سراٹھاکر دیکھا
تو ایک نوعمر لڑکا کھڑاتھا‘بعضوں نے فقرے چست کیے کہ ”جاؤ میاں کھیلوکودو!یہ جنگ
ہے بچوں کا کھیل نہیں ۔“سلطان نے یہ فقرے سنے تو غصے سے چہرہ سرخ ہوگیا ‘بولا:”یہ
بچہ سچ کہتا ہے‘اس کی صور ت بتاتی ہے کہ یہ کل میرا ساتھ دے گا ۔یہی وہ بچہ ہے جو
”رہا“سے میرے پاس فریاد لے کر آیاہے ‘اس کا نام صلاح الدین ہے ۔“ یہ سن کر فوجیوں کو غیرت
آتی ہےسب تیار ہوجاتے ہیں اور اگلے روز دوپہر تک رہا پہنچ کر حملہ کردیا ۔گھمسان
کی جنگ ہوئی ‘عیسائی سپہ سالاربڑی آن وبان کے ساتھ مقابلے کے لیے نکلا ‘سلطان نے
اس پر کاری ضرب لگائی مگر لوہے کی زرہ نے وار کو بے اثر بنادیا ،عیسائی سپہ سالار
نے پلٹ کر سلطان پر حملہ کیا اور نیزہ تان کر سلطان کی طرف پھینکنا ہی چاہتا
ہے کہ صلاح الدین کی تلوار فضامیں بجلی کی طرح چمک اٹھی اور زرہ کے کٹے ہوئے حصہ
پر گر کر عیسائی سپہ سالار کے دوٹکڑے کرکے رکھ دیئے ۔عیسائی سپہ سالار کے موت کے گھاٹ اترتے ہی عیسائی فوج
بھاگ کھڑی ہوئی اور ”رہا“پر مسلمانوں کا قبضہ ہوگیا۔
آج ہر شخص کی زبان پر نوعمر صلاح الدین کی شجاعت
کے چرچے ہیں اور یہ واقعہ تاریخ اسلام میں سنہرے الفاظ میں لکھا جاتا ہے۔
جوان
ہوکر یہی صلاح الدین مشرق کا وہ سپہ سالار اور جرنیل بناکہ جس کی تلوار ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
صلیبیوں
کا لاؤلشکر لے کر صلاح الدین کے علاقے میں پہنچ گیا ۔سلطان نے اس کا کیسے استقبال
کیا؟یہ تو آپ کتاب پڑھ کر جان لیں گے ۔اس مختصر سے کتابچے میں ہم نے سلطان کی
زندگی کے آخری چھ سال کا عرصہ منتخب کیا ہے ۔سلطان کی زندگی کے یہ آخری ۶ سال اس
کی زندگی کے سب سے قیمتی اور یادگار ایام ہیں کہ جن میں اس نے مسلسل صلیبیوں سے
معرکے کرتے ہوئے ‘جہاد وقتال کے میدان گرم
کرتے ہوئے ‘صلیبیوں کو ہر طرف سے گھیر
گھیر کر ان کا شکارکرتے ہوئے ‘بیت المقدس
کو ان کے ناپاک عزائم سے بچانے کے لیے ‘اللہ
کے اس بابرکت گھر کی عزت وناموس کی رکھوالی
کے لیے ‘دن رات اپنی جان ہتھیلی پر
لیے ‘شمشیروں کی چھاؤں میں ‘تیروں کی بارش میں ‘نیزوں کی انیوں میں ‘گھوڑے کی پشت پر بیٹھ
کر ‘اس کودشمن کی صفوں میں سرپٹ دوڑاتے
ہوئے ‘تلواربلند کرتے ہوئے‘اللہ کے باغیوں ‘ کافروں‘ظالموں کی گردنیں اڑاتے ہوئے ۔۔۔۔۔۔من دون اللّہ
کے ان پجاریوں کو خاک وخون میں
تڑپاتے ہوئے اور ایسے معرکے ‘ولولے ‘غلغلے ‘برپاکرتے ہوئے اور دشمن پر گھاتیں
لگاتے ۔۔۔۔یلغاریں کرتے ‘شاہین کی طرح ممولوں پر جھپٹتے پلٹتے اور پھر جھپٹتے
۔۔۔۔۔۔سلطان کی زندگی کے آخری چھ سالوں میں اسی مجاہدانہ روپ کو دکھایا گیا ہے
۔اس جہادی وقتالی تگ وتاز میں سلطان کی زندگی کی آخری صبحیں اور شامیں گزریں
۔حتیٰ کہ اس نے صلیبیوں کے سروں کی فصل کو شمشیرجہاد سے کاٹتے ہوئے مسجد اقصیٰ کو
ناپاک صلیبی قبضے سے آزاد کروالیا۔سلطان کے انہی شجاعت ودلاوری بہادری وحمیت سے
بھرپورقتالی ایام کے چند نظاروں کو ہم نے کتاب کا حصہ بنایا ہے کہ جو خالصتاً
سلطان کے جہادی وقتالی کردار کے غماز ہیں ۔
عظیم
مجاہد !صلاح الدین ایوبی کی زندگی کے آخری سالوں کے یہ جہادی لمحات ہمیں یہ دعوت
مبازرت دے رہے ہیں کہ ((ھل من مبارز))کہ
تم میں کوئی ایسا دلاور ہے جو میدان میں آکران صلیب کے پجاریوں کا مقابلہ کرے ۔کہ
آج جب امت مسلمہ
صلیبیوں کے گھیروں‘ان کی مکروہ چالوں اور فریبانہ سازشوں کے جال میں پھنس کر
لہولہان ہے ۔۔۔۔آہ!۔۔۔۔۔آج
افغانستان ‘کشمیرجنت نظیر کے مظلومین ‘مقہورین ‘مجبورین‘معصومین ۔۔۔۔۔کٹے پھٹے
۔۔۔۔۔خون آلود۔۔۔۔۔بارود کی بُو میں رچے بسے ۔۔۔۔۔رو روکر یہ فریاد کررہے ہیں کہ
نام نہاد مہذب یورپی درندوں نے ہمیں چیر پھاڑ کر رکھ دیا۔۔۔۔۔۔ہمیں گھر سے بے
گھر۔۔۔۔۔۔۔وطن سے بے وطن کردیا ہے۔۔۔۔۔۔ہمارا یہ حال کردیاہے ۔۔۔۔۔ہم جائیں تو کس
کے پاس شکایت لے کر جائیں ۔۔۔۔۔۔کس کے پاس فریادی بن کر جائیں ۔۔۔۔۔۔ہم کس کو اپنا
دکھڑا سنائیں کہ کون ہمارے دکھوں کا مداویٰ کرسکے ۔۔۔۔۔۔یہ دکھیارے آج کسی ایوبی
اور قاسم رحمہمااللہ کے منتظر ہیں۔آسیں لگائے کب سے بیٹھے ہیں ۔آج پھروہی مسجد اقصیٰ ۔۔۔۔۔۔وہی بیت المقدس جس کو سلطان صلاح الدین نے غیرت
مسلم کا ثبوت دیتے ہوئے آزاد کروایا تھا،پھر صلیبیوں اور یہودیوں کے خونخوار
پنجوں میں پھنسی ہوئی ہے ۔۔۔۔۔اور وہاں مسجد اقصیٰ ۔۔۔۔۔سسکتی ہوئی‘بلکتی ہوئی
۔۔۔۔کراہتی ہوئی ۔۔۔۔۔۔آہیں اور سسکیاں بھرتی ہوئی ‘ہم سے یوں فریاد کناں ہے ‘ہم
سے کہہ رہی ہے کہ ۔۔۔۔۔میں (اللہ کا گھر)اقصیٰ ۔۔۔۔اے غیرتوں ‘شجاعتوں کے امین مسلمانو!۔۔۔۔۔۔تمہیں پکار رہی ہوں ۔۔۔۔۔۔کب سے بلک رہی ہوں ۔۔۔۔۔۔۔کہ کفر کے تیر میرے
سجدوں کے لیے بے تاب جسم کو زخمی کررہے ہیں ۔۔۔۔۔۔میرا جسم زخموں سے چور چور ہوچکا
ہے ‘لہولہان اور ویران ہوچکاہے ‘۔۔۔۔۔۔اے آخری نبی محمدﷺکے کلمہ پڑھنے والے امتیو!تم
میری چیخوں کو سن بھی رہے
ہو۔۔۔۔۔پھر بھی میری مدد کے لیے نہیں آرہے؟۔۔۔۔۔۔کیا ہوگیا ہے تمہیں ۔۔۔۔۔کب
آکرمیرے زخموں پر مرہم رکھوگے ۔
ان
حالات میں کیا ہم میں کوئی ایسا ہے جو صلاح الدین بن کر دنیا بھر کے صلیبیوں کو
منہ توڑ جواب دے کر یہ بتادے کہ غیرت مسلم ابھی زندہ ہے ‘ایوبی کی شجاعت ابھی زندہ
ہے ۔۔۔۔۔۔ہماری رگوں
میں ابھی غزنوی غوری اور ابن قاسم رحمۃ اللہ علیہم کا غیرتوں اور شجاعتوں کا امین
خون گردش کررہا ہے ۔۔۔۔۔۔اگر تم نےمسلمانوں پر روا موجودہ مظالم کو صلیبی جنگوں کا
بدلہ کا نام دے دیا ہے ‘تو پھر ایسے ہی سہی ۔۔۔۔۔۔اب ہر میدان میں دوبارہ ہلال اور
صلیب کی جنگ ہوگی ۔۔۔۔۔۔کفر اور ایمان کی جنگ ہوگی ۔۔۔۔۔۔۔ظالم اور مظلوم کی جنگ
ہوگی ۔اب میدانِ جہاد وقتال سجیں گے ۔۔۔۔۔۔اب معرکے ہوں گے ۔۔۔۔۔اب ایوبی کے
روحانی فرزند جہاد وقتال کی شمشیر بے نیام ہاتھوں میں تھام کر ‘میدان کارزار میں اُتر
آئے ہیں ۔۔۔۔۔۔رب
المستضعفین کی رحمت سے ۔۔۔۔۔۔۔اب ہر اس صلیبی کے ہاتھ اور پاؤں کاٹ دئیے
جائی گے جو ظلم کے لیے کسی مسلمان کی طرف
بڑھیں گے ۔وہ آنکھ نکال دیں گے جو
امت مسلمہ کی کسی بیٹی کی طرف بری نظر سے دیکھنے کی جراءت کرے گی کہ صلاح الدین کے
روحانی فرزند ابھی زندہ سلامت ہیں ۔۔۔۔۔۔وہ تمہیں ہرجگہ ظلم سے روکیں گے ۔۔۔۔۔جہاد
وقتال کی شاہراہ پر چلتے ہوئے تیرے پیچھے پیچھے آئیں گے ۔۔۔۔۔۔۔تمہیں مظلوم
ومجبور مسلمانوں پر ہرگز ظلم نہیں کرنے دیں گے ۔۔۔۔۔ظلم سے روکنے کو ۔۔۔۔۔۔تم
ہماری دہشت گردی کہو یا صلیبی جنگ کے آغاز کا بغل بجاؤ۔۔۔۔۔ہم ہردم تیار
ہیں۔۔۔۔۔۔اپنے رب کریم کی رحمت ونصرت پر بھروسہ کرتے ہوئے ہم تجھے باور کروادیتے
ہیں کہ ان شاء اللہ تیری طرف سے شروع کی گئی اس صلیبی جنگ کا نتیجہ بھی وہی برآمد
ہوگا جو سلطان صلاح الدین ایوبی کے دور میں برآمد ہواتھا۔۔۔۔۔۔پھر تو آگے آٓگے
ہوگا اور ہم تیرے پیچھے پیچھے تعاقب کرتے ہوئے یورپ پہنچیں گے ۔۔۔۔اور اس وقت تک
اس جہادی وقتالی شعلے کو سرد نہ ہونے دیں گے ۔۔۔۔۔کہ جب تک یورپ میں جہاد کے شعلے
نہیں بھڑک اٹھتے ۔۔۔۔۔اعلائے کلمۃ اللہ کا پرچم لہرانہیں جاتا۔۔۔۔۔ جب تک دین خالص
اللہ کے لیے نہیں ہوجاتا اور فضائیں ”اللہ اکبر“کے دلنواز ترانوں سے نہیں گونج
جاتیں۔۔۔۔۔ان شاء اللہ وہ دن عنقریب آنے والا ہے۔
ان شاء
اللہ !اب اللہ تعالیٰ کی
رحمت سے ہر جوان دنیا میں مختلف جگہ ظلم وجور پر مبنی روا رکھی گئی ان صلیبی جنگوں
کے لیے تیار ہوچکا ہے ۔۔۔۔بس ذرا صبر کہ جبر کے دن تھوڑے ہیں ۔۔۔۔۔۔مسرت کی گھڑیاں
آئی ہی چاہتی ہیں۔ ان شاء اللہ
0 comments:
Post a Comment
Leave a comment