قیامت
کے منکر اس بات کو ماننے کے لیے بالکل تیا ر نہیں ہیں کہ وہ انسان کہ جس
کی ہڈیاں مرنے کے بعد گل سڑ کر ختم ہو جاتی ہیں ،قیامت کے دن پھر جی اٹھے
گا ،یہ کس طرح ممکن ہے کہ ہر انسان وہی شکل وصورت لے کر دوبارہ زندہ ہو
جائے گا۔ اللہ تعالیٰ نے اس کا جواب درج ذیل آیت میں دیا ہے:
(اَیَحْسَبُ الْاِنْسَانُ اَلَّنْ نَّجْمَعُ عِظَامَہ ۔ بَلٰی قٰدِرِیْنَ عَلٰی اَنْ نُّسَوِّیَ بَنَانَہ)
''
کیا انسا ن یہ سمجھتاہے کہ ہم اس کی ہڈیاں اکٹھی نہ کر سکیں گے؟کیوں
نہیں،ہم اس بات پر قادر ہیں کہ (پھر سے )اس کی انگلیوں کے پور پور تک درست
بنا دیں''(1)
ماں
کے پیٹ میں حمل کے چوتھے مہینے میں جنین کی انگلیوں پر نشانات بنتے ہیں
،جوپھر پیدائش سے لے کر مرنے تک ایک جیسے رہتے ہیں۔انگلیوں کے نشان ،آڑھی
ترچھی ،گول اورخمدار لکیروں پر مشتمل ہوتے ہیں۔ جو انسان کی جلد کے اندرونی
وبیرونی حصّوں کی آمیزش سے بنتے ہیں۔ کسی بھی انسان کی پہچان اور شناخت کے
لیے ہاتھ کی لکیریں بنیادی کردار ادا کرتی ہیں۔مگر اس بات کا بنی نوع
انسان کو پتہ نہیں تھا۔تاہم دو سو سال پہلے انگلیوں کے نشانات اس قدر اہم
نہ تھے کیونکہ انیسویں صدی کے آخر میں یہ بات دریافت ہوئی تھی کہ انسانوں
کی انگلیوں کے نشان ایک دوسرے سے مختلف ہوتے ہیں۔1880ء میں ایک انگریز
سائنس دان Henry Fauldsنے
اپنے ایک مقالے میں جو ''نیچر''نامی جریدے میں شائع ہوا ،اس بات کا انکشاف
کیا تھا کہ لوگوں کی انگلیوں کے نشان عمر بھر تبدیل نہیں ہوتے اوران کی
بنیاد پر ایسے مشتبہ لوگ جن کی انگلیوں کے نشان کسی شے پر مثلاًشیشے وغیرہ
پر رہ جاتے ہیں' مقدمہ چلایا جاسکتاہے۔ ایسا پہلی بار 1884ء میں ہوا کہ
انگلیوں کے نشانات کی شناخت کی بناپر ایک قتل کے ملز م کو گرفتار کرلیا گیا
تھا۔ اس دن سے انگلیوں کے نشانات شناخت کا نہایت عمدہ طریقہ بن گئے
ہیں۔تاہم 19ویں صدی سے قبل غالباً لوگوں نے بھول کر بھی نہ سوچاہو گا کہ ان
کی انگلیوں کے نشانات کی لہر دار لکیریں بھی کچھ معنی رکھتی ہیں اوران پر
غور بھی کیا جاسکتا ہے۔ (2)
ڈاکٹر
ذاکر نائیک کے مطابق بھی '' دنیا میں کسی بھی آدمی کی انگلیوں کے نشان کسی
بھی دوسرے آدمی کی انگلیوں کے نشانات سے نہیں ملتے چاہے وہ جڑواں ہی کیوں
نہ ہوں۔ یہی وجہ ہے کہ بین الاقوامی طور پر بھی پولیس مجرموں کی شناخت کے
لیے فنگر پرنٹس کے طریقے ہی کو استعمال کرتی ہے''۔ ( 3)
ساخت کے لحاظ سے جلد دو تہوں پرمشتمل ہوتی ہے۔ ایک بیرونی پتلی تہہ جس کو برادمہ (Epidermis)کہتے ہیں۔یہ تہہ برحلمی (Epithelial)خلیوں پر مشتمل ہوتی ہے جو باہم بہت زیادہ پیوست ہوتے ہیں۔اس کے نیچے ایک اندرونی موٹی تہہ ہوتی ہے،جو ادمہ (Dermis)کہلاتی
ہے۔ ادمہ کی سطح بہت سے مقامات پر انگلیوں کی طرح کے ابھاروں کی صورت میں
اٹھی ہوتی ہے۔ یہ ابھار برادمہ میں گھسے ہوئے ہوتے ہیں۔انہیں ثالیل (Papillae)یاادمی ثالیل (Dermal Papillae)کہتے
ہیں۔یہ ابھار ہتھیلی اورتلووں (بمعہ ہاتھ اورپاؤں کی انگلیوں کے )پر سب سے
زیادہ نمایاں ہوتے ہیں۔خاص طورپر ہاتھ اورپاؤں کی انگلیوں کی سیدھی جانب
ان ابھاروں کی قطاریں اس حد تک واضح ہوتی ہیں کہ ان کے نشانات کاغذ یا کسی
بھی چیز پر حاصل کیے جا سکتے ہیں۔ہر فرد کی انگلیوں اورانگوٹھے میں ان
ابھاروں کی ترتیب اورانداز مختلف ہوتے ہیں۔یعنی ایک آدمی کی انگلیوں کے یہ
نشانات کسی بھی دوسرے آدمی سے نہیں ملتے۔ حتیٰ کہ جڑواں بچوں کے بھی نہیں۔
نیزایک ہی آدمی میں یہ ابھارایک جیسے رہتے ہیں اورزندگی کے کسی بھی مرحلے
میں تبدیل نہیں ہوتے۔ البتہ عمر کے ساتھ ساتھ یہ سائز میں بڑے ہوتے جاتے
ہیں۔(4)
بچے
میں یہ ابھار حمل کے تیسرے اورچوتھے مہینے کے درمیان میں اس وقت پیداہوتے
ہیں جب برادمہ نیچے موجود ادمی ابھاروں کے خدوخال کے موافق ہوجاتی ہے۔ ان
ابھاروں کا کبھی بھی نہ تبدیل ہونے کی خاصیت ہر انسان کی انفرادی پہچان کا
ایک بہترین ذریعہ ہے۔چونکہ پسینوں کے غدود کی نالیا ں برادمی ابھاروں کی
چوٹیوں پر کھلتی ہیں ،اسی لیے جب کسی ہموار چیز کو چھواجاتا ہے تو اسی پر
انگلیوں (یا پاؤں )کے نشانات ثبت ہو جاتے ہیں۔
جدید سائنس نے حال ہی میں انکشاف کیاہے کہ جرائم کی تحقیقات میں پولیس
کو بہت جلد انگلیوں کے نشانات سے لوگوں کے طرززندگی کے بارے میں بھی اہم
معلومات حاصل ہو سکیں گی جن کی مدد سے انہیں مجرم تک پہنچنے میں بہت مدد
ملے گی۔ برطانیہ میں ہونے والی ایک تحقیق سے ایسے امکانات پیداہوئے ہیں جن
سے سگریٹ نوشی 'منشیات کے استعمال یا انگلیوں کے نشانات میں عمر کے ساتھ
رونما ہونے والی تبدیلیوں کا پتا چلایا جا سکتاہے۔
ڈاکٹرجکیلز
کا کہنا ہے کہ جب انسان کسی چیز کو چھوتے ہیں تو کچھ نامیاتی مرکبات
انگلیوں کے پوروں سے اس چیز پر لگ جاتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ انگلیوں کے
پوروں میں بہت سے نامیاتی مرکبات پائے جاتے ہیں اوریہ بہت سے امکانات کو
جنم دیتے ہیں۔اس طرح کا ایک نامیاتی مرکب جس سے کولیسٹرول بھی بنتاہے
انسانی پوروں میں بڑی تعداد میں پایا جاتاہے۔ یہ مرکب جسے سکیولین کہا
جاتاہے انسانی ہاتھ سے مس ہونے والی چیز پر رہ جاتاہے۔ اس کا روایتی طریقے
یا انسانی آنکھ سے پتا لگانا ناممکن ہے۔
ڈاکٹر
جکیلز کے مطابق بالغوں 'بچوں اورعمر رسیدہ لوگوں کی انگلیوں سے مختلف
نوعیت کے نامیاتی مرکبات چیزوں پر لگتے ہیں۔ اس کے علاوہ منشیات کا استعمال
کرنے والوں کی ا نگلیوں کے پوروں سے جو نامیاتی مرکبات چیزوں پر لگتے ہیں
اس میں ان نشہ آور اشیا کے اثرات بھی پائے جاتے ہیں جو وہ استعمال کرتے
ہیں۔(5)
اللہ
تعالیٰ مندرجہ بالاآیت میں ان لوگوں کو جواب دیتے ہوئے فرماتاہے کہ وہ نہ
صرف ہماری ہڈیوں کو دوبارہ بالکل اسی طرح جوڑ دے گا جیسا کہ وہ پہلے تھیں
بلکہ ان کی انگلیوں کے پوروں کے نشانات بھی بالکل ویسے ہی ہوں گے جیسا کہ
پہلے تھے۔ قرآن یہاں پر انسانوں کی شناخت کے حوالے سے انگلیوں کے نشانات کو
کیوں اہمیت دے رہا ہے جبکہ 1880 ء سے پہلے انگلیوں کے نشانات کے ذریعے کسی
انسان کی انفرادیت یا شناخت کا تصور بھی نہیں پا یا جاتاتھا۔ چنانچہ اربو ں
کھربوں انسانوں کی ہلاکت کے بعد قیامت کے دن دوبارہ ان کو زندہ کرنا جب کہ
ان کی ہڈیاں ریزہ ریزہ اورجسم گل سڑ چکے ہوں گے ،دوبارہ اسی شکل وصورت میں
پیداکرنا بلکہ انگلیوں کے پور پور تک کا اسی پہلی بناوٹ میں ہونا ،اللہ
تعالیٰ کی عظمت و بڑائی کا ایک منہ بولتا ثبوت ہے۔چنانچہ یہ بات کسی دلیل
کی محتاج نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کی انگلیوں کی لکیروں میں جو راز
پنہاں رکھا ہے وہ اس کی قدرت کی نشانیوں میں سے ایک نشانی ہے۔ اوراللہ
تعالیٰ نے جو بے مثال انجنیئرنگ اور ڈیزائنگ صرف چند مربع سینٹی میٹر کے
رقبے میں کی ہے کسی انسان کے بس کی بات نہیں ہے بلکہ انسان اس بات کا تصور
بھی نہیں کر سکتا کہ اتنی چھوٹی سی جگہ کے اندر اربوں ، کھربوں نمونے تیار
کیے جا سکتے ہیں۔ یہا ں سوال پیدا ہوتا ہے کہ 1400 سال پہلے وہ کون سی ہستی
تھی کہ جس کو پتہ تھا کہ تما م انسانوں کے ہاتھوں کے نشانات مختلف ہیں اور
ان ہی کی وجہ سے کسی انسان کی شناخت ممکن ہے تو جواب ملے گاکہ سوائے اللہ
رب العزت کی ذات کے 'کوئی اس بات کو نہیں جانتا تھا کیوں کہ وہی ہمارا خالق
ہے اور وہی جانتاہے کہ انسان کی پیدائش کس طرح ہوئی۔
0 comments:
Post a Comment
Leave a comment