عصر کا وقت تھا۔ روضہ رسول کے باب جبریل کے بالکل سامنے مسجد نبوی کی سیڑھیوں کے ساتھ ایک کونے میں باریش بزرگ مدھم سی آواز میں قرآن پاک کی تلاوت میں مصروف تھا۔ یہ بزرگ دنیا سے بالکل بے نیاز لگ رہا تھا لیکن وقفے وقفے سے کوئی نہ کوئی اس بزرگ کو السلام علیکم کہہ کر اور مصافحہ کرکے دعائیں لے لیتا تھا۔ تھوڑی دیر میں ایک اور باریش بزرگ لاٹھی ٹیکتا ہوا آیا اور پہلے سے بیٹھے ہوئے بزرگ کو سلام کرکے دیوار کے ساتھ بیٹھ گیا۔ پہلے سے بیٹھے ہوئے بزرگ نے فوراً ایک نوجوان سے کہا کہ اُس کی کمر کے پیچھے سے تکیہ نکال کر دوسرے بزرگ کی کمر کے پیچھے رکھ دو۔
دونوں بزرگوں نے چہرے پر ہلکی مسکراہٹ کے ساتھ آنکھوں ہی آنکھوں میں کچھ باتیں کیں اور پھر اپنی اپنی عبادت میں مصروف ہو گئے۔ دونوں بزرگوں نے روضہ رسول کے سامنے مسجد نبوی کے صحن میں ہزاروں مسلمانوں کے ہمراہ باجماعت نماز عصر ادا کی اور پھر دوبارہ اپنی جگہ پرآکر عبادت کرنے لگے۔ اسی اثناء میں ایک تیسرا بزرگ بھی آن پہنچا۔ اس تیسرے بزرگ کو دیکھتے ہی پہلے سے موجود ایک بزرگ نے اُنہیں اپنا مصلیٰ پیش کردیا تاکہ وہ فرش کی ٹھنڈک سے بچ جائیں۔ باب جبریل کے سامنے مسجد نبوی کا یہ کونہ دراصل بابا غلام محمود خان کا ٹھکانہ ہے۔ چارسدہ کے علاقے تنگی سے تعلق رکھنے والے یہ باباجی پچھلے کئی سال سے مسجد نبوی کے اس کونے میں پڑے ہیں۔ ایک دفعہ سکیورٹی حکام نے اُنہیں اس جگہ سے ہٹانے کی کوشش کی تو باباجی نے کہا کہ وہ صرف موت کا انتظار کررہے ہیں اور مرنے کے بعد جنت البقیع میں دفن ہونا چاہتے ہیں۔ جنت البقیع وہ قبرستان ہے جو روضہ رسول کے سامنے واقع ہے۔ اس قبرستان میں ہزاروں صحابہ کرام اور نبی کریم کے خاندان کے اہم افراد دفن ہیں۔ بابا غلام محمود کی یہ خواہش سُن کر سیکورٹی حکام نے اُنہیں تنگ کرنا چھوڑ دیا۔ اس بابا کے پاس اوکاڑہ کے علاقے دیپالپور کے ایک گاؤں سے تعلق رکھنے والا بابا محمد یار بھی آکر بیٹھتا ہے اور عبادت کرتا ہے۔
عصر کے بعد یہاں عبادت کرنے والے تیسرے باباجی شیخ عبدالله بن عمر السندھی ہیں۔ ان کی تمام عمر بھی مسجد نبوی میں گزر گئی ہے۔ مغرب کی اذان سے کچھ دیر پہلے ایک دبلاپتلا اور لمبا سا سیاہ فام بزرگ بھی یہاں آبیٹھتا ہے۔ اس کا نام شیخ عبدالرحمن السوڈانی ہے۔ یہ باباجی سال کے 365 میں سے 363 دن روزے رکھتے ہیں اور روزانہ کھجوروں اور قہوے کے ساتھ روضہ رسول کے سامنے اسی کونے میں افطار کرتے ہیں۔ بابا غلام محمود خان، بابا محمد یار، شیخ عبدالله بن عمر السندھی اور دیگر الله والے روزانہ اسی جگہ سوڈانی بزرگ کو خوش آمدید کہتے ہیں۔ بابا غلام محمود خان صرف پشتو بولتا ہے اور دعائیں بھی پشتو میں دیتا ہے۔ بابا محمد یار پنجابی بولتا ہے۔ شیخ سندھی اُردو، سرائیکی اور سندھی بول لیتے ہیں جب کہ بابا سوڈانی صرف عربی سمجھتا ہے۔ یہ چاروں بزرگ ایک دوسرے کی زبان نہیں سمجھتے لیکن ایک دوسرے کے دل کا حال جانتے ہیں۔
یہ خاکسارمسلسل دو دن تک عصر سے لے کر عشاء تک مسجد نبوی کے اس کونے میں عبادت کرنے والے ان بابوں کو سمجھنے کی کوشش کرتا رہا۔
روضہ رسول کے آس پاس مجھے بہت سے بابے نظر آئے۔ ان میں سے کوئی شام سے، کوئی یمن سے ، کوئی فلسطین سے، کوئی بنگلہ دیش اور کوئی بھارت سے تعلق رکھتا ہے، لیکن ان بابوں کو پہچاننا اور پھر جاننا دنیا داروں کے لئے بہت مشکل ہوتا ہے۔ یہ الله والے بولتے بہت کم ہیں اور اپنی ذات میں علم و عبادت کے بڑے بڑے سمندر گم کرکے خاموش بیٹھے رہتے ہیں۔ یہ کسی سے کچھ مانگتے ہیں نہ لیتے ہیں بلکہ صرف دیتے ہیں۔ آپ اُن کے پاس بیٹھ جائیں تو جو کچھ اُن کے پاس ہو گا وہ آپ کی تواضع کے لئے اُٹھا کر سامنے رکھ دیں گے۔ کوئی غریب نظر آجائے تو جیب میں جو کچھ ہوگا نکال کر اُس کے ہاتھ پر رکھ دیں گے۔ آپ دعا کی درخواست کریں تو دُعاؤں کے ڈھیر لگادیں گے لیکن اگر آپ اُن کے ساتھ دنیا کی باتیں شروع کریں گے تو یہ بابے خاموش ہوجائیں گے۔ فریضہ حج کی ادائیگی کے بعد مسجد نبوی میں ان بابوں کے ساتھ ملاقات میرے لئے الله تعالیٰ کا بہت بڑا تحفہ تھا اور اس تحفے تک پہنچنے کا ذریعہ قسور سعید مرزا بنے جنہیں میں نے بابا غلام محمود خان کے پاؤں دباتے دیکھا تو سمجھ میں آگیا کہ وہ ہر دو ماہ کے بعد بھاگے بھاگے مدینے کیوں آتے ہیں۔
ان بابوں کی محفل میں کچھ وقت گزارنے کا فائدہ یہ ہوا کہ دنیا کے مختلف علاقوں کے مسلمانوں سے ملاقاتیں ہوتی رہیں۔ یہ مسلمان ان بابوں کے سامنے اپنے دُکھ اور تکلیفیں بیان کرتے اور یہ بابے اُن کا حال دل سن کر ہاتھ اٹھا کر الله تعالیٰ سے اُن کے لئے خیر مانگتے تھے۔ دو دن تک ان بابوں کے آگے پیچھے ایک بلی بھی موجود رہی۔ اس بلی کو میں نے کچھ کھاتے پیتے نہیں دیکھا۔ یہ کوئی گندگی بھی نہیں پھیلاتی اور نماز کے دوران نمازیوں کے قدموں میں بھی گھومتی پھرتی دکھائی دیتی رہی۔ اس بلی کا ٹھکانہ بھی وہی کونہ ہے جہاں یہ بابے عبادت کرتے ہیں۔ شاید مسجد نبوی میں انسانوں کے ساتھ ساتھ جانوروں کے لئے بھی خیر ہے۔ ان بابوں کے متعلق مجھے پتہ چلا کہ یہ رات گئے تہجد سے کچھ پہلے مدینہ کے شمال میں واقع پہاڑ جبل اُحد کے پاس اُس مقام پر حاضری دیتے ہیں جہاں نبی کریم حضرت محمد صلی الله علیہ وسلم کے پیارے چچا حضرت حمزہ دفن ہیں۔ حضرت حمزہ جنگ اُحد میں70 دیگر صحابہ کے ہمراہ شہید ہوگئے تھے، اور کفار نے اُن کی لاش کی بے حرمتی کی تھی۔ رسول کریم کو اپنے اس ہم عمر چچا سے بڑی محبت تھی۔
آپ ہر بدھ کو شہدئے اُحد کے مزار پر جاکر فاتحہ کہتے تھے۔ جب نبی کریم کا وصال قریب آیا تو آپ بیماری کے باوجود شہدائے اُحد کے پاس پہنچے اور بڑے درد کے ساتھ اُن کے لئے دعائیں کیں۔ اپنے پیارے نبی کی سنت پر چلتے ہوئے مدینہ کے بابے اُحد کی وادی میں دفن حضرت حمزہ اور اُن کے ساتھیوں کے مزار پر آکر دعائیں پڑھتے ہیں۔
اس میدان جہاد میں صوفیوں اور مجاہدین کے درمیان نسبت کی بھی سمجھ آتی ہے۔ ایک رات بابا محمد یار حضرت حمزہ کے مزار پر بیٹھے عبادت کررہے تھے کہ اُنہیں پکڑ کر حکم دیا گیا کہ اُنہیں پاکستان واپس بھیجو۔ راتوں رات حکم جاری کرنے والے کے ساتھ نجانے کیا ہوا کہ صبح ہی صبح اُس نے بابا محمد یارسے معافی مانگی اور کہا کہ اُسے حضرت حمزہ سے بھی معافی دلواؤ۔ باباجی کی باتیں سن کر تجسس اور شوق مجھے بھی دو راتوں کو حضرت حمزہ کے مزار پر لیجاتا رہا۔ بدھ کی رات تو یہاں میلے کا سماں ہوتا ہے لیکن اس میلے میں کوئی ناچ گانا یا تعویذ گنڈا نہیں ہوتا بلکہ اُحدکے میدان جہاد میں مرد، عورتیں اور بچے صرف عبادت کرتے ہیں۔ میں نے یہاں فلسطین، کشمیر اور افغانستان کے مجاہدین کے حق میں دعائیں بھی سُنی ہیں۔ اس گناہ گار نے میدان عرفات سے میدان اُحد اور خانہ کعبہ سے مسجد نبوی تک مسلمانوں کی دُعاؤں میں اضطراب اور آنکھوں میں جو آنسو دیکھے وہ یقینا ضائع نہیں جائیں گے۔ اس سال حج کے موقع پر کم از کم پونے دو لاکھ پاکستانیوں نے بھی اپنے وطن کے لئے خیر مانگی اُن کی بھی بہت جلد سنی جائے گی۔ مدینہ کے بابے کہتے ہیں کہ سچے دل سے دعا کرنے والوں کی ہمیشہ سُنی جاتی ہے لیکن خالی دُعا سے کام نہیں چلتا عمل کو بھی ٹھیک کرنے کی ضرورت ہے۔ مدینہ کے بابے زیادہ نہیں بولتے لیکن اُن کی سرگوشیوں میں عالم اسلام اور پاکستان کے لئے کچھ خطرات کا بھی ذکر تھا۔ اُنہیں مستقبل قریب میں کچھ گڑبڑ، خون خرابہ اور بڑی تبدیلیاں نظر آتی ہیں۔ لیکن کچھ عرصہ کے بعد پاکستان کے حالات میں تیزی کے ساتھ بہتری نظر آتی ہے۔ پاکستانیوں کے لئے امتحان کا وقت کچھ عرصہ مزید جاری رہے گا لیکن اُس کے بعد خیر ہی خیر ہے۔ مدینہ کے بابوں کو پاکستان کے ساتھ ساتھ افغانستان کی طرف سے بھی روشنی کی کرنیں پھوٹتی نظر آتی ہیں۔ مدینہ کے بابے جو کچھ بھی مانگتے ہیں صرف الله تعالیٰ سے مانگتے ہیں کسی دنیاوی طاقت سے کچھ نہیں مانگتے اور یہی وہ نکتہ ہے جو سمجھ میں آجائے تو نجات ہی نجات ہے۔ مدینہ کے بابوں کی یہ دعا ہے کہ یاالٰہی جہاں خیر وہاں پیر اور جہاں پیر وہاں خیر۔ الله تعالیٰ بابوں کی دعائیں قبول کرے اور ہمیں اپنے اعمال ٹھیک کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ (آمین)
Sir there is a similar article written by Hamid Mir. Did he steal it from someone or its really written by him as he is a stupid SAFMA member?
ReplyDeleteYes this article is written by him. What he is saying about these babas is true even though Allah didnt give him taufeeq to take faiz from them.
ReplyDeletesum ameem.Allah hmain ghalat aur drust ka shaour bhi day,yeh shaour bhi to MALIK ki ata hoti hy jisy chahy day...Allah bless you sir rshq ata hy apky naseeb py un baboun sy faiz bhi to naseeb waloun ko ata hota hy Malik ka ap py bohat kerm hy
ReplyDeleteMahsallah, May Allah give them what they want.
ReplyDeleteReally loved this article.