Tuesday, November 27, 2012

امانت …. دیانت …. حکومت

Wasif Khayal -
امانت اور دیانت ایک دوسرے کے ساتھ اس طرح لازم و ملزوم ہیں …. جس طرح جسم کے ساتھ روح ۔ دیانت امانت کی روح ہے ۔جو اپنے اندر دیانت نہیں رکھتا‘ وہ امانت رکھنے کا اہل نہیں۔ کوئی خاندان ہو یا خانقاہ ….مملکت ہو یا معیشت …. دیانت کے جوہر کے بغیر اپنے وجودکاطول وعرض برقرار نہیں رکھ سکتی ۔

حکومت بھی ایک امانت ہے …. امانت نااہل کے سپرد ہوجائے تو سلامت نہیں رہتی۔ حکومت ….عوام کی طرف سے حکمرانوں کے پاس جمع شدہ چھوٹی بڑی بہت سی امانتوں کا ایک مجموعہ ہوتی ہے۔ یہ امانتیں حقوق کی شکل میں بھی ہو سکتی ہیں۔ مملکت کا حکمران مالک الملک کی منشاءکے مطابق ایک منشی بن کر عوام کی امانتوں کے بہی کھاتوں کی نگرانی کرتاہے ۔ کسی امانت کو ہڑپ کرنا تو دور کی بات ….امانتوں کی نگرانی سے غفلت کانام بھی بددیانتی ہے۔

 اس طرح ملکی سطح پر نااہل ہونا‘ بددیانت ہونے کے زمرے میں آتاہے ۔ خازن ہی اگر خائن ہوجائے تو خزانہ کدھر جائے۔ بددیانت حکمرانوں کے دورِ حکومت میں ملکی خزانہ اُن کے ہاتھوں سے نکلتاہواغیر ملکی دسترس میں چلا جاتاہے…. یوںبددیانتی غداری کی ایک شکل بن جاتی ہے۔ جب بد عنوان ہونا عیب کی بجائے ہنر تصور کیا جائے تو مملکت پر جو تباہی نازل ہوتی ہے ‘ اس کا بس تصور ہی کیا جاسکتاہے ۔

حکومت کرنادراصل حکمت کرنا ہے ۔ کسی حکومت کی حکمت ِ عملی صرف اس وقت عملی حکمت بن سکتی ہے جب سرمایہ دار ‘ جاگیر دار ‘سوداگراور تاجرقسم کے لوگ اختیارات کے منبع و مرکز سے دُور رکھے جائیں ۔ تاجر ‘مملکت کی تجوری کو تجارت کیلئے استعمال کرے گا ….سوداگر‘ رعایا کا سودا کر سکتاہے…. زردار‘ زور آور ہو کر مزید زر اندوزی کرے گا …. اور جاگیر دار جب کوئی الیکشن یا سیلیکشن جیتنے میں کامیاب ہوجائے گا ‘تو رعیت کو ہاری تصور کرے گا۔

حکومت کرنا دراصل زیر دستوں کوزبردستوں کے استبداد سے بچانے کا شعبہ ہے ۔ یہ انصاف سے شروع ہوتاہے اور احسان تک پہنچتاہے ….زبردستوں کے ساتھ انصاف …. اور زیردستوں کے ساتھ احسان۔ انصاف اُس وقت انصاف نظر آتا ہے ‘جب یہ اُوپر سے شروع کیا جائے۔

انصاف مستحسن ہے ‘ مگر احسان سے احسن نہیں۔بس !منصفوں کو یہ یاد رکھنا چاہئے کہ انصاف کا عمل اوپر سے شروع ہوتا ہے اور احسان کا عمل نیچے سے !!

حکومت …. اقتدار حاصل کرنے اور پھر اس کی حفاظت کی تدبیرکرتے رہنے کا نام نہیں ….بلکہ حکومت کا کام اقدار کی حفاظت کرناہے …. خواہ اس عمل میںاقتدار محفوظ رہے ‘یانہ رہے۔ اختیارِ اعلیٰ…. رب الاعلیٰ کی طرف سے دی گئی ایک امانت ِ چند روزہ ہے ۔ چند روزہ امانت پر ہمیشہ کیلئے تصرف کی خواہش ہی بددیانتی ہے۔ دولت کے ارتکازسے لے کر اختیارات کے ارتکاز تک …. سب خرابیاں اس عارضی تصرف پر ہمیشہ متصرف رہنے کی خواہش سے پیدا ہوتی ہیں۔ نافرمان لوگ اقتدار کو ہمیشہ کیلئے حاصل کرناچاہتے ہیں …. حالانکہ فرماں روائی اقتدار کی بجائے اقدار کو حاصل ہوتی ہے۔ فرماںروائی‘ دلوں پر فرمان جاری کرنے کو کہتے ہیں۔دلوں پر جاری ہونے والے فرمان دلوں پر بھاری نہیں ہوتے ۔حکمرانی حکم چلانے کو نہیں کہتے ۔حکم چلانے والے کو چِلّانا پڑتاہے …. یا پھر خود چلنا پڑتاہے ۔حکمرانی کابھرم اپنے مالک کے حکم پر چلنے سے قائم رہتاہے ۔درحقیقت ہر حکومت‘ نگران حکومت ہوتی ہے ۔

اِختیار کی طرح دولت بھی ایک امانت ہے۔ اپنے اختیار کو دولت میں اضافے کیلئے استعمال کرنا …. یا اپنی دولت کے استعمال سے کوئی اختیار حاصل کرنا …. دونوں ہی بدعنوانی کے زمرے میں آتے ہیں۔ بدعنوانی دراصل عنوانات کا اَدل بدل ہی توہوتاہے ….اور عنوانات کے بدلنے سے بدعنوانی و بداعتدالی کے نئے نئے عنوانات کھلتے ہیں۔اختیار اور دولت دونوںمیں سے کسی کا استعمال بھی حد سے گذر جائے تو اِس پر حد جاری ہوسکتی ہے ۔

یہ زندگی بھی ایک چند روزہ امانت ہے۔ امانت اور دیانت کا سبق پہلے اپنے وجود کی عمارت میں نافذ کرنا واجب ہوتاہے…. تب ہی اِس کا نفاذ باہر کی اَمارت میں ممکن ہوتاہے ۔

 ہمیں اپنے چندمربع فٹ وجود پر چندعشروں کیلئے تصرف دیا گیاہے۔ اپنے جسم پر اقتدار اعلیٰ کے منصب پر فائز ہونے کے بعد معزول ہونا کتنا یقینی ہوتاہے …. اس پر یقین اُس یقین سے پہلے آجانا چاہئے جس کا ایک نام موت بھی ہے ۔ بہر حال ملکِ وجود ہو ‘یا وجودِمملکت…. مالک الملک کی مرضی کو نظر انداز کرنے والا ….اپنی مرضی سے تصرف کرنے والا…. بدعنوان ہی کہلائے گا ۔

لفظ معنی کا عنوان ہوتے ہیں ۔ روح کی طرح معانی بھی بے نام رہتے ہیں…. جب تک انہیں اسم اور جسم کا لباس میسر نہیں آجاتا ۔جہانِ معانی میں کسی معنی کو اس کے صحیح عنوان سے ہٹا دینا بدعنوانی میں شمار ہو تاہے ۔ جب ہم سچ بولتے ہیں تو لفظ اور معانی کے رشتوں کے ساتھ عدل کر رہے ہوتے ہیں …. اورجب جھوٹ بولتے ہیں تو ظلم کرتے ہیں ….کہ الفاظ کو اُن کے صحیح تناظر اور مفہوم سے محروم کردیتے ہیں ۔ الفاظ جسم ہیں اور معانی روح …. جسموں کو روح کے نزدیک رکھنا ….دراصل روح کے عالم میں کئے گئے ایک وعدے پر پورا اُترنے کی تدبیر ہے ۔ حکمِ ربی ہے کہ وعدوں کے متعلق سوال ہوگا۔انسان اپنے وعدوں کا مسﺅل ہے ۔ درحقیقت روحانیت ‘اپنی مسﺅلیت کا احساس ہے۔

وعدہ بھی ایک امانت ہے …. لفظوںکی شکل میں دی گئی ایک امانت۔وعدہ پورا نہ کرنا امانت میں خیانت کرنا ہے۔ وعدہ وفانہ کرنے والاہی توبے وفا کہلاتاہے ۔وعدہ ایک ایسی امانت ہے ….جسے لینے والے کی بجائے دینے والے کو واپس کرنا ہوتاہے ۔وعدہ …. حال کے پاس مستقبل کی امانت ہے ۔الفاظ کی شکل میںوصول اور موصول ہونے والی یہ امانت جب عمل کی صورت میں لوٹائی جاتی ہے‘ تو اسے دیانت داری کہتے ہیں ۔ 

کل کا وعدہ ایک جھوٹا وعدہ ہوتاہے …. کیونکہ کل کبھی نہیں آتا۔ آج کی درخواست پر آج ہی عمل درآمد ضروری ہوتاہے …. کیونکہ آج ہر روز آتاہے۔ درخواست پر غور کرنے کے وعدے میں آدھا انکار شامل ہوتاہے ۔ ہر عہد اپنے عہد ہی میں پورا ہونا چاہئے ….جو اپنا عہد پورانہیں کرتا‘ اُس کا عہد اَدھورا رہ جاتاہے ۔درحقیقت اپنے عہد پر پورانہ اُترنے والا‘ کسی عہدے کیلئے بھی پورا نہیں اُترسکتا

صبح ِ اَلست انسان اپنے رب سے بھی ایک عہد کر چکا ہے ….اب زندگی کی شام پڑنے سے پہلے اِسے اپنا بندہ ہونا ثابت کرنا ہے ….تاکہ وہ اپنے عہد پر ثابت قدم رہنے کا ثبوت پیش کرسکے ۔

بندے کا اپنے رب کے حضور سجدہ ¿ِ تسلیم‘ اُس کے پاس اپنے عہدپر قیام کاثبوت ہے ۔ غور کرنے کا مقام ہے …. قدیم نے کس مقام پرحادث کواپنے کس راز کی امانت تفویض کر دی ….کہ کہا گیا ….: الانسانُ سِرّی وانا سِرّہ ‘ ….”اِنسان میرا راز ہے اور میں اِنسان کا راز ہوں “ …. گویا رب کا راز انسان کے پا س ہوتاہے ….یا یوں کہیں کہ انسان وہی ہوتاہے جس کے پاس اپنے رب کا راز ہوتاہے ….یونہی نہیں کہ اُلُوہی راز کے متلاشی بالآخر پہنچتے انسان ہی کے پاس ہیں!!
امانت دیانت اور ایفائے عہد کے باب میں معیارِ اوّل و آخر وہی ایک ہستی ہے جو نگاہ عشق ومستی ہی میں نہیں‘ نگاہ ِ فکرو دانش میں بھی اوّل و آخر ہے…. 

….ازل سے صادق …. ابد الآباد تک امین۔ تمام صداقتیں اپنی صداقت کی سند پانے کیلئے صادقﷺ کی طرف رجوع کرتی ہیں ….تمام امانتیں‘ آسمانی ہوں یا زمینی …. امین ہی کے پاس عافیت و حفاظت پاتی ہیں ….تمام عہد درحقیقت صادق و امین کے دم قدم سے قائم ہیں ۔قصہ مختصر …. انسان ہونے کیلئے الانسان ﷺ کا ہونا پڑتاہے۔

پس ….انسان وہی ہے جو الانسان کے قریب ہے ….اور یہ قرب‘ زمان و مکاں سے ماوراءہے…. کہ یہ قرب ‘قرب ِ معنوی ہے ۔ظاہر ہے صادق اور امین کے قریب وہی ہوسکتاہے ‘ جس کا باطن امانت ‘دیانت اور ایفائے عہد کے نور سے منوّر ہوگا۔درحقیقت تصوف اخلاقِ محمدیﷺ سیکھنے اور سکھانے کا نام ہے ۔

ہم کتنے خوش نصیب ہیں کہ قریب کے دور میں ہم ایک ایسی شخصیت سے متعارف ہوئے کہ جس کا قول و کردار اِخلاقِ محمدی کا پرتو تھا۔
تری راہوں میں بے سایہ گیا ہوں

ڈاکٹر اظہر وحید

1 comments:

Leave a comment