Monday, August 6, 2012

اے کاش.....

تاریخ گواہ ہے کہ غرور و تکبر کے نشے میں بدمست لوگوں اور ہاتھیوں کا انجام ہولناک ہوا، نمرود سر میں جوتیاں کھاتا مرا تو فرعون دریائے نیل میں غرق ہو کر تاابد نشانِ عبرت بن گیا، شداد، سامری اور قارون جیسے بدبخت نہ رہے مگر ہوسِ زر کا لباس پہنے گورے لوگ آج بھی کالے کرتوتوں میں اُن کے گمشدہ خزانوں کی تلاش میں کہیں ملک و ملت سے غداری کا طوق پہنے در بہ در ہیں اور کہیں صلیبی بادشاہ گروں کے کمین بن کر کاسہ و کشکول لئے تماشہءذلت۔ آج چنگیز خان کی قبر کا کہیں نام و نشان یا اتا پتہ تک موجود نہیں دنیا پر حکمرانی کا خواب دیکھنے والا ہٹلر سائنایڈ کا کیپسول لے کر اپنی محبوبہ ایوا براؤن کے ساتھ قبر میں اُتر گیا تو اُس کے اطالوی حلیف مسولینی کی لاش کو اُسی کی قوم نے کئی دنوں تک شہر کے چوراہے پر لٹکائے رکھا ۔

چشم عالم نے یہ نظارہ ءعبرت بھی بڑی حیرت سے دیکھا کہ شاہ ایران کی لاش کو دو گز زمین کے لئے ساری دنیا گھومنی پڑی اور سانحہء مشرقی پاکستان پر جشن منانے والی بدبخت اندرا اور اُس کے بیٹے ایسے بھیانک انجام کو پہنچے کہ آج تک اُس خاندان کے کسی فرد کو کرسیء اقتدار پر بیٹھنے کی جرات نہیں ہوئی پاکستان میں سوشلزم، اسلام اور کبھی روشن خیالی کے نام پر انقلاب لانے کے دعویدار اور مفلس و مجبور قوم کو بے وقوف بنا کے خون چوسنے والے سیاسی اور فوجی ڈکٹیٹرز میں سے کوئی عدالتوں کے ہاتھوں قتل ہوا تو کوئی امریکی خفیہ ایجنسیوں کی سازشوں میں حادثات کا شکار، کوئی اپنے پیاروں کے ہاتھوں قتل ہو کر کھربوں ڈالرز چھوڑ گیا تو کوئی خود ساختہ جلاوطنی میں دھرتی کے قتل کے سودوں اور ریمنڈ ڈیوس کی دلالی سے اربوں کما رہا ہے مگر موت کے خوف سے وطن سے دور گوری گود میں بیٹھا یہود و نصاریٰ کی دھنوں پر برہمنوں کے راگ الاپتا ہے۔


اللہ کا نظام اور سیاست دانوں کی اپنے ہی خون سے بے وفائی کا یہ عالم ہے کہ یورپی بینکوں میں اربوں ڈالرز کی مالکہ بیگم نصرت بھٹو اپنی یاداشت کھوئے سانس کی مصنوئی مشین پرحالت کومہ میں رہی مگر اس کا کوئی پیارا کبھی اس کی خبر گیری کے لئے نہیں جاتا تھا مگر دوسری طرف اسکی شہید بیٹی سے لازوال محبت کا دعوی کرنے والا اسکے مقدمہءقتل کو طوالت دینے میں مصروف شوہر نامدار نا جانے کس کیلئے کھربوں ڈالرجمع کر رہا ہے، شاید اپنے اس شہزادے کے لئے جسکی سیکورٹی، لندن میں گوری تتلیوں اور رنگ رنگیلیوں کے لئے ماہانہ کروڑوں ڈالرز درکار ہیں یا پھر فرعون اور قارون کی طرح ہوس زراُس بامِ عروج پر پہنچ چکی کہ جس کے بعد کائنات کے اصل مقتدر اعلیٰ کے آئین ِ قدرت کا وہ سپریم آرڈر آتا ھے جسے کسی عدالت، این آر او یا اٹھارویں ترمیم کی بیساکھیوں کی ضرورت نہیں ہوتی اور پھر ہوتا وہی ہے جو میر جعفر، میر قاسم اور میر صادق کے ساتھ ہوا۔ پانچ ہزار روپے ٹیکس دینے والے کھرب پتی صنعتکار سیاست دان کابیٹا لندن ہسپتال میں جان لیوا مرض اور بیگم بوجہ عارضہ قلب زندگی اور موت کی کشمکش میں ہے، بھائی صاحب طوفانی دوروں کے دوران اچانک ہسپتال پہنچ جاتے ہیں اور کبھی خود کا درد دل اپنے دوستوں کے وطن ولایت کے ہسپتالوں کے سرجری بستر پر لے جاتا ہے لیکن ہوسِ زر اور ہوس ِ ترامیم کا طوفن زہر کی طرح روح کی گہرائیوں تک سرایت کر چکا ہے۔ میاں صاحب کے رائیونڈ پیلس کا ماہانہ خرچہء مہمانداری و سیاست پندرہ کروڑ روپے ہے مگر پڑوس میں غریب فاقہ کش اپنے بچوں سمیت خودکشیوں پر مجبور ہیں مگر خادم اعلیٰ کی سستی روٹی سکیم سے کئی مہنگے ترین عالی شان بنگلوں کا خرچ چلتا رہا ہے۔

ق قینچی لیگ کے وڈے پاجی چوہدری شجاعت حسین کو زندگی کےلئے صرف بیس روپے کی مالیت کے انسولین انجکشن چار ٹائم درکار ہیں لیکن لینڈ مافیہ اور بینک کرپشنز سے اربوں ڈالرز کما کر بھی ان کی لالچ اور طمع کا پیٹ نہیں بھر پایا۔ ہائی بلڈ پریشراور عارضہ قلب کے مریض اور ہرسرکار کے مشیرِجمہوریت مولانا فضل الرحمن ڈیزل صاحب اربوں کما کر مزید کھربوں کمانے کو کسی بھی لوٹے اتحاد اور قتل ِ وطن کی ہر سازش میں اپنا پر اسرارمذہبی اور آئینی کردارادا کرنے میں ہمہ وقت تیار رہتے ہیں۔ ساری زندگی ایمانداری اور قانون کی حکمرانی کا نعرہ لگانے والے عمران خان نے کرپشن اور لوٹا کریسی کے سب ریکارڈ توڑنے والوں کو ہی ضمنی الیکشن میں پارٹی ٹکٹ دے کراپنی اننگ کے بیٹنگ پاور پلے میں جارحانہ اندازاختیار کیا تھا شاید وہ سمجھ گئے ہیں کہ لینڈ مافیہ، جاگیرداروں اور طاقتور امیدواروں کے بغیر الیکشن میں جیت تو درکنار الیکشن لڑنا ہی نا ممکن ہے۔ عین سچ تو یہی ہے کہ وہ پی پی پی ہو، ن لیگ، ق لیگ جیسے مفاد پرست سیاسی عناصر ہوں، صلیبوں کے آلہ کار دین فروش علماءسیاست ہوں یا متحدہ قومی موومنٹ یا پیر صاحب پگاڑا جیسے سامراجی کٹھ پتلی پریشر گروپس۔ ایک دن یہ سب ایک دوسرے کیساتھ دست و گریبان ہوتے ہیں مگر دوسرے دن اپنے سامراجی آقاؤں کے حکم اور خواہش کے عین مطابق جاسوس قاتل ریمنڈ ڈیوس کی ڈیل کروانے یا مفلسان ِقوم پر وار کے لئے خونخوار آلہء قتل یعنی سیاسی بندر بانٹ کے عالمگیر نظریہءضرورت کے تحت کہیں پراسرار حریف و حزب الاختلاف اور کبھی ہر دور میں اقتدار سے چمٹے کرپشن میں حصہ دارحلیف و حزب الاقتدار بن کرایک ساتھ ہوتے ہیں۔

اے کاش ملک و ملت کے یہ نام نہاد خدام اور پیشہ ور سیاسی بہروپیے تاریخ کے وہ صفحات پڑھ لیں جن پران جیسے ان گنت ابن الوقت قوم فروشوں ، بازار ِ سیاست کے بے ضمیر لوٹوں غدارانِ ملک و ملت اور مریضانِ ہوس ِ زر کا بھیانک اورعبرت ناک انجام صاف صاف لکھا ہے ۔۔۔۔۔۔

ہر دور ِ طاغوت اور ظلمت کی تاریخ لکھی ہے قدرت نے
درویش پھڑے جد رب میرا، مُڑھ کڈھ کڑاکے دیندا اے

0 comments:

Post a Comment

Leave a comment